Urdu Picture Shiari Art


Urdu Picture Shiari Art by Urdu Poetry Designers

19 تبصرے

  1. Anaya said,

    جنوری 8, 2013 بوقت: 9:25 صبح

    تمہیں معلوم ہو جائے گا رونا کس کو کہتے ہیں

    کبھی دامن، کبھی پلکیں بھگونا کس کو کہتے ہیں
    کسی مظلوم سے پوچھو کہ رونا کس کو کہتے ہیں

    رفو کرنا جسے آتا ہے اپنے دل کے زخموں کو
    تمہیں بتلائے گا سینا پرونا کس کو کہتے ہیں

    کبھی میری جگہ خود کو رکھو، پھر جان جاؤ گے
    کہ دنیا بھر کے دُکھ دل میں سمونا کس کو کہتے ہیں

    نہ خواب آور دوائیں کھا کے بھی نیند آسکے تم کو
    سمجھ لو گے کہ کانٹوں کا بچھونا کس کو کہتے ہیں

    مری آنکھیں مرے چہرے کو اک دن غور سے دیکھو
    مگر مت پوچھنا، ویران ہونا کس کو کہتے ہیں

    تمہارا دل کبھی پگھلے اگر غم کی حرارت سے
    تمہیں معلوم ہو جائے گا رونا کس کو کہتے ہیں

    اعتبار ساجد

  2. Anaya said,

    جنوری 8, 2013 بوقت: 9:20 صبح

    یہاں سب سے الگ سب سے جدا ہونا تھا مجھ کو
    مگر کیا ہو گیا ہوں، اور، کیا ہونا تھا مجھ کو

    ابھی اک لہر تھی جس کو گزرنا تھا سروں سے
    ابھی اک لفظ تھا میں، اور، ادا ہونا تھا مجھ کو

    پھر اس کو ڈھونڈنے میں عمر ساری بیت جاتی
    کوئی اپنی ہی گم گشتہ صدا ہونا تھا مجھ کو

    پسند آیا کسی کو میرا آندھی بن کے اٹھنا
    کسی کی رائے میں بادِ صبا ہونا تھا مجھ کو

    در و دیوار سے اتنی محبت کس لیے تھی
    اگر اس قید خانے سے رہا ہونا تھا مجھ کو

    میں اپنی راکھ سے بے شک دوبارہ سر اٹھاتا
    مگر اک بار تو جل کر فنا ہونا تھا مجھ کو

    میں ہو گیا کچھ اور، ورنہ، اصل میں تو
    برا ہونا تھا مجھ کو، یا بھلا ہونا تھا مجھ کو

  3. Anaya said,

    جنوری 8, 2013 بوقت: 9:16 صبح

    جلا دیا ہے چراغ ایسا کہ لوگ جس کی مثال دیں گے
    جلا دیا ہے چراغ ایسا کہ لوگ جس کی مثال دیں گے
    بری نظر سے ہوا نے دیکھا تو اس کی آنکھیں نکال دیں گے

    سنا ہے پتھر کو موم کرنے کا بس وہی ایک راستہ ہے
    حرارتیں خونِ آرزو کی بھی اب کے اشکوں میں ڈال دیں گے

    سنا ہے سینے کی دھڑکنیں اس کی آہٹوں سے جڑی ہوئی ہیں
    تو ہم سماعت کو شوق کے آئینے میں اس بار ڈھال دیں گے

    سنا ہے منزل تلک نہیں ہے بنا بنایا سا کوئی رستہ
    چلو تو اب کے سفر میں اچھاسا راستہ بھی نکال دیں گے

    سنا ہے راہِ طلب کے راہی سے نقد جاں مانگنے لگے ہیں
    سوال ہم سے کیا کسی نے تو ہم تو سن کے بھی ٹال دیں گے

    سنا ہے اس رات کے سفر میں اگر چلیں گے وہ نام لے کر
    تو اتنا چمکیں گے حرف اس کے کہ راستوں کو اجال دیں گے

    سنا ہے پچھلی حکایتوں میں بھی نام اس کے بدل گئے تھے
    تو عصرِ نو کی کہانیوں سے بھی کیسے اس کو نکال دیں گے

    سنا ہے طرزِ ستمگری میں ہوا ہے اب کے نیا اضافہ
    کہ زخم کھانے کے بعد سب کو وہ مرہمِ اندمال دیں گے

    سنا ہے دورِ قبولیت کا پھر آرہا ہے کریم موسم
    تو اب کے ہم کاسۂ دعا میں تمام دکھ درد ڈال دیں گے

  4. Anaya said,

    جنوری 8, 2013 بوقت: 9:13 صبح

    جانے اب کس دیس ملیں گے اُنچی ذاتوں والے لوگ؟
    نیک نگاہوں سچّے جذبوں کی سوغاتوں والے لوگ

    پیاس کے صحراؤں میں دُھوپ پہن کر پلتے بنجارو۔!
    پلکوں اوٹ تلاش کرو بوجھل برساتوں والے لوگ

    وقت کی اُڑتی دُھول میں اپنے نقش گنوائے پھرتے ہیں
    رِم جھِم صبحوں روشن شاموں ریشم راتوں والے لوگ

    ایک بھکارن ڈھونڈ رہی تھی رات کو جھوٹے چہروں میں
    اُجلے لفظوں سچّی باتوں کی خیراتوں والے لوگ

    آنے والی روگ رُتوں کا پُرسہ دیں ہر لڑکی کو !
    شہنائی کا درد سمجھ لیں گر باراتوں والے لوگ

    پتھر کُوٹنے والوں کو بھی شیشے جیسی سانس مِلے!
    محسنؔ روز دُعائیں مانگیں زخمی ہاتوں والے لوگ

    محسنؔ

  5. Anaya said,

    جنوری 8, 2013 بوقت: 9:08 صبح

    اگر تم سا ، کیسا لگے گا؟
    بن جاوں، اگر تم سا ، کیسا لگے گا؟
    ہر پل رہوں تم سے خفا کیسا لگے گا؟

    پڑھتے ہو مجھے تم نمازوں کی طرح سے
    ہو جاوں اگر تم سے قظاء کیسا لگے گا؟

    تم پیار میں خود کو مٹانے پر ہو رازی
    بن جاے اگر پیار سزا کیسا لگے گا؟

    خود سے بھی زیادہ ہو یقین تم کو کسی پر
    وہ شخص ہی دے جاے دغاء کیسا لگے گا؟

    تم اوروں کی محفل میں دیا ء بن کے جلو
    اور تنہای ملے تم کو تو پھر کیسا لگے گا؟

  6. Anaya said,

    جنوری 4, 2013 بوقت: 10:11 صبح

    خلش محبتوں کی، وہ کسک رفاقتوں کی
    میں کسے سنا رہا ہوں یہ غزل محبتوں کی
    کہیں آگ سازشوں کی ، کہیں آنچ نفرتوں کی

    کوئی باغ جل رہا ہے، یہ مگر مری دعا ہے
    مرے پھول تک نہ پہنچے، یہ ہوا تمازتوں کی

    مرا کون سا ہے موسم مرے موسموں کے والی!
    یہ بہار بے دلی کی، یہ خزاں مروّتوں کی

    میں قدیم بام و در میں انہیں جا کے ڈھونڈتا ہوں
    وہ دیار نکہتوں کے، وہ فضائیں چاہتوں کی

    کہیں چاند یا ستارے ہوئے ہم کلام مجھ سے
    کہیں پھول سیڑھیوں کے، کہیں جھاڑیاں پتوں کی

    مرے کاغذوں میں شاید کہیں اب بھی سو رہی ہو
    کوئی صُبح گلستاں کی، کوئی شام پربتوں کی

    کہیں دشتِ دل میں شاید مری راہ تک رہی ہو
    وہ قطار جُگنوں کی، وہ مہک ہری رُتوں کی

    یہ نہیں کہ دب گئی ہے کہیں گردِ روز و شب میں
    وہ خلش محبتوں کی، وہ کسک رفاقتوں کی

  7. Anaya said,

    دسمبر 29, 2012 بوقت: 3:26 شام

    safar malaal ka hei aur chal rahi huun mei
    ghubaar-e-shab ki udasi mei dhal rehi huun mei

    ajeeb barf ki barish badan pe utri hei
    ke jis ki aag mei chup chaap jal rehi huun mei

    phir ik charaagh jala shaam ki haveli mein
    phir ek dard se aakhir sambhal rehi huun mei

    ye rakh rakhaao usay jaan’ne naheen de ga
    ke apne aap mei kese pighal rahi huun mei

    ye ishq sach se juda kese ho gaya jaana?
    ab is saval se bahar nikal rehi huun mei

    bas ek ishq meri zaat per saheefa ho
    mere khuda! ye aqeeda badal rahi huun mei

    -NOSHI GILANI

  8. Anaya said,

    دسمبر 29, 2012 بوقت: 3:25 شام

    گھیر لیا ہے وحشت نے
    اِک بے نام مسافت نےدل کا رستہ دیکھ لیا ہے
    ایک اداس محبت نے
    شہر ِ وفا برباد کیا ہے
    بے مہری کی عادت نے

    آنکھوں کو حیرانی دی ہے
    درد کی اتنی شدت نے

    ہجر مسافر کر ڈالا ہے
    آخر اپنی قسمت نے

    کارِ سخن آسان کیا ہے

    صبح و شام ریاضت نے

  9. Anaya said,

    دسمبر 29, 2012 بوقت: 3:18 شام

    میں سال کا آخری سورج ہوں
    میں سب کے سامنے ڈوب چلا
    کوئی کہتا ہے میں چل نہ سکا
    کوئی کہتا ہے کیا خُوب چلا
    میں سب کے سامنے ڈوب چلا
    … اس رخصتِ عالم میں مجھ کو
    اک لمحہ رخصت مل نہ سکی
    جس شب کو ڈھونڈنے نکلا تھا
    اس شب کی چاہت مل نہ سکی
    یہ سال کہاں، اک سال کا تھا
    یہ سال تو اک جنجال کا تھا
    یہ زیست جو اک اک پَل کی ہے
    یہ اک اک پَل سے بنتی ہے
    سب اک اک پَل میں جیتے ہیں
    اور اک اک پَل میں مرتے ہیں
    یہ پَل ہے میرے مرنے کا
    میں سب کے سامنے ڈوب چلا

    اے شام مجھے تُو رخصت کر
    تُو اپنی حد میں رہ لیکن
    دروازے تک تو چھوڑ مجھے
    وہ صبح جو کل کو آئے گی
    اک نئی حقیقت لائے گی
    تُو اُس کے لئے، وہ تیرے لئے
    اے شا،م! تُو اتنا جانتی ہے
    اک صبحِ امید ، آثار میں ہے
    اک در تیری دیوار میں ہے
    اک صبحِ قیامت آنے تک
    بس میرے لیے بس میرے لیے
    یہ وقت ہی وقتِ قیامت ہے
    اب آگے لمبی رخصت ہے
    اے شام جو شمعیں جلاؤ تم
    اک وعدہ کرو ان شمعوں سے
    جو سورج کل کو آئے یہاں
    وہ آپ نہ پَل پَل جیتا ہو
    وہ آپ نہ پَل پَل مرتا ہو
    وہ پُورے سال کا سورج ہو
    اے شام مجھے تو رخصت کر!

  10. Anaya said,

    دسمبر 28, 2012 بوقت: 11:38 صبح

    خدایا کیوں مجھے لایا زمیں پر
    لُٹا انمول سرمایا زمیں پر
    فرشتوں میں رہا ہوتا تو کیا تھا
    میں انساں بھی نہ بن پایا زمیں پر
    گناہوں کے تلے دبتا گیا ہوں
    ثوابوں کا نہ پھل کھایا زمیں پر
    میں کس جنگل میں آ کے بس گیا ہوں
    کوئی قانون نہ سایہ زمیں پر
    پناہ گاہیں کہاں ڈھونڈوں اماں کی
    کہ اک سیلِ رواں آیا زمیں پر
    کوئی امبر پہ بچ نکلا تپش سے
    مجھے سورج نے جُھلسایا زمیں پر
    غریبوں کو ملے روزی نہ روٹی
    یہ کیسا قحط ہے آیا زمیں پر؟
    کوئی سُنتا نہیں خلقِ خُدا کی
    امیرِ شہر کون آیا زمیں پر ؟
    کئی خونخوار بھوکے بھیڑیوں نے
    زمیں والوں کو ہے کھایا زمیں پر
    کئی وعدے کیے اس نے مکرر
    کبھی پورے نہ کر پایا زمیں پر
    دلوں کی بات رہتی ہے دلوں میں
    دلوں کا بھید نہ پایا زمیں پر
    میں اس سے کیا کہوں اپنی کہانی
    وہ میرا ہی نہ بن پایا زمیں پر

  11. Anaya said,

    دسمبر 28, 2012 بوقت: 11:36 صبح

    شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
    میں آخری جنگ لڑ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

    ہوائیں پیغام دے گئی ہیں کہ مجھ کو دریا بلا رہا ہے
    میں بات ساری سمجھ گیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

    نہ جانے کوفے کی کیا خبر ہو نہ جانے کس دشت میں بسر ہو
    میں پھر مدینے سے جا رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

    مجھے عزیزانِ من, محبت کا کوئی بھی تجربہ نہیں ہے
    میں اس سفر میں نیا نیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

    مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش

    میں عادتاً سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

  12. Anaya said,

    دسمبر 28, 2012 بوقت: 11:34 صبح

    سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
    تری آنکھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
    کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    تری یادوں کی خوشبوکھڑکیوں میں رقص کرتی ہے
    ترے غم میں سلگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    میں ہنس کے جھیل لیتا ہوں جدائی کی سبھی رسمیں
    گلے جب اس کے لگتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    نہ جانے ہوگیا ہوں اس قدر حساس میں کب سے
    کسی سے بات کرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    وہ سب گزرے ہوئے لمحے مجھ کو یاد آتے ہیں
    تمہارے خط جو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    میں سارا دن بہت مصروف رہتا ہوں مگر جونہی
    قدم چوکھٹ پہ رکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    ہر اک مفلس کے ماتھے پر الم کی داستانیں ہیں
    کوئی چہرہ بھی پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    بڑے لوگوں کے اونچے بدنما اور سرد محلوں کو
    غریب آنکھوں سے تکتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    ترے کوچے سے اب مرا تعلق واجبی سا ہے
    مگر جب بھی گزرتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

    ہزاروں موسموں کی حکمرانی ہے مرے دل پر
    وصی میں جب بھی ہنستا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں

  13. Anaya said,

    دسمبر 28, 2012 بوقت: 11:29 صبح

    مجھے تنہائیوں کی دھوپ میں چلنے کی عادت ہے
    کوئی بھی کیفیت دل میں زیادہ دیر کب اتری
    وہی تو جانتا ہے
    منتظر تھا کب سے میں اس کا
    سوالِ خامشی کے گرم میلوں کی دوپہروں میں
    وہ آنکھیں جانتی ہیں
    دیر تک اس بند مٹھی میں
    میں اس بہتے ہوئے پانی کو
    روکے رہ نہیں سکتا
    خراشیں دُکھ رہی ہیں
    پانی پڑتے ہی جلن کچھ اور بھی ہوگی
    جنوں کے حرف یکدم آنسوؤں کا اوڑھ کر چہرہ
    ٹپک کر چیختی چنگھاڑتی لہریں بہاتے ہیں
    خدا جانے میں اپنی دھوپ کی پگڈنڈیوں کے موڑ
    اندھیروں کے تعاقب میں کیوں ایسے دوڑ کر اترا
    کہ ٹھاٹھیں مارتا پانی
    مری آنکھوں کی ساری سرخ اینٹیں توڑ کر نکلا
    یہ آنکھیں جانتی تھیں پانی پڑتے ہی
    جلن، کچھ اور بھی ہوگی
    وہی یہ جانتا تھا
    منتظر اس کی تھا میں کب سے
    وہی اک پیاس تھی
    جو خشک ہونٹوں پر بنی سسکی
    اسی پانی کی
    اس کو بھی بہت دن سے ضرورت تھی
    کسی سائے بنا اس نے کبھی
    چلنا نہیں سیکھا
    کسی بھیگی اداسی کا بھی کوئی
    پل نہیں چکھا
    سو میں نے بخش دی وہ بھی
    جو گھر میں ٹین کی چھت تھی
    مجھے تنہائیوں کی دھوپ میں
    جلنےکی عادت تھی
    مجھے تنہائیوں کی دھوپ میں
    چلنے کی عادت ہے ۔ ۔ ۔

  14. Anaya said,

    دسمبر 26, 2012 بوقت: 9:25 صبح

    کبھی ہم بھیگتے ہیں چاہتوں کی تیز بارش میں
    کبھی برسوں نہیں ملتے کسی ہلکی سی رنجش میں
    تمہی میں دیوتاؤں کی کوئی خُو بُو نہ تھی ورنہ
    کمی کوئی نہیں تھی میرے اندازِ پرستش میں
    یہ سوچ لو پھر اور بھی تنہا نہ ہو جانا
    اُسے چھونے کی خواہش میں اُسے پانے کی خواہش میں

    بہت سے زخم ہیں دل میں مگر اِک زخم ایسا ہے
    جو جل اُٹھتا ہے راتوں میں جو لَو دیتا ہے بارش میں

  15. Anaya said,

    دسمبر 26, 2012 بوقت: 9:22 صبح

    کیوں میرا دل شاد نہیں
    کیوں خاموش رہا کرتا ہوں
    چھوڑو میری رام کہانی
    میں جیسا بھی ہوں اچھا ہوں

    میرا دل غمگیں ہے تو کیا
    غمگیں یہ دنیا ہے ساری
    یہ دکھ تیرا ہے نہ میرا
    ہم سب کی جاگیر ہے پیاری

    تو گر میری بھی ہو جائے
    دنیا کے غم یونہی رہیں گے
    پاپ کے پھندے، ظلم کے بندھن
    اپنے کہے سے کٹ نہ سکیں گے

    غم ہر حالت میں مہلک ہے
    اپنا ہو یا اور کسی کا
    رونا دھونا، جی کو جلانا
    یوں بھی ہمارا، یوں بھی ہمارا

    کیوں نہ جہاں کا غم اپنا لیں
    بعد میں سب تدبیریں سوچیں
    بعد میں سکھ کے سپنے دیکھیں
    سپنوں کی تعبیریں سوچیں
    بے فکرے دھن دولت والے
    یہ آخر کیوں خوش رہتے ہیں
    ان کا سکھ آپس میں بانٹیں
    یہ بھی آخر ہم جیسے ہیں

    ہم نے مانا جنگ کڑی ہے
    سر پھوڑیں گے ، خون بہے گا
    خون میں غم بھی بہہ جائیں گے
    ہم نہ رہیں ، غم بھی نہ رہے گا
    (فیض)
    Faiz Ahmad Faez

  16. Anaya said,

    دسمبر 26, 2012 بوقت: 9:18 صبح

    Is Sham wo Rukhsat ka Sama Yaad rahe ga
    Wo Shehar, wo koocha, Wo Makaa’n yad rahe ga

    Wo Tees K ubhri thi idhar Yaad rahe gi
    Wo dard k Utha tha Yaha Yaad rahe ga

    Hum Shoq k Sholey ki Lapak Bhool bhi Jayein
    Wo Shama Fasoorda Ka Dhuwa yad rahe ga

    Haan Bazm-e-Shabana mein Hume Shoq Jo is din
    Hum to Teri Janib -e- nigraa’n yaad rahe ga

    Kuch meer k Abiyat thay , Kuch FAIZ k Misray
    Ik dard ka tha Jin mein Biyaa’n Yaad rahe ga

    Jaa’n Bakhash si is Barg -e- gull taar ki Tarawat
    Wo Lamas Aazeez-o-Do Jahaa’n yaad rahe ga

    Hum Bhool sake hain Na Tujhe Bhool sakein gey

  17. Anaya said,

    دسمبر 26, 2012 بوقت: 9:14 صبح

    زمیں مہنگی پڑی ہم کو یہ گھر مہنگا پڑا ہم کو
    کوئی اذن سفر شاید مہنگا پڑا ہم کو
    جسے مانگا تھا ہم نے وہ کبھی بھی مل نہ پایا
    یہ لگتا ھے دعاوں کا اثر مہنگا پڑا ہم کو
    ہوئی جب سے شناسائی ہماری ان ادیبوں سے
    سخن سے آشنائی کا ہنر مہنگا پڑا ہم کو
    کوئی جذبہ سمجھ نہ آیا ہائے اس کی محبت کا
    کسی کی سوچ کا ذوق نظر مہنگا پڑا ہم کو
    نہیں چھپنے دیا ہوتا یہ فن ادبی رسائل میں
    کہ اب شہرت کا درجہ کس قدر مہنگا پڑا ہم کو
    بھرے اس شہر میں راشد کوئی ہم کو بھی پسند آیا
    گلی مہنگی پڑی اس کی وہ در مہنگا پڑا ہم کو

  18. Anaya said,

    دسمبر 26, 2012 بوقت: 9:07 صبح

    kuch nahi hai mere paas khali
    hu main
    Wahi toh hai ab baaki meri
    zindagi mein !
    uske liye hi maangta hu har
    khushi ab to,
    jab bhi uthhte hai haath mere
    bandagi mein !!

  19. Raiz said,

    دسمبر 24, 2012 بوقت: 2:23 شام

    urdu.com


Leave a reply to Anaya جواب منسوخ کریں